Presentation is loading. Please wait.

Presentation is loading. Please wait.

از نگہت یِِِِِِا سین DA College For Women Phase 8

Similar presentations


Presentation on theme: "از نگہت یِِِِِِا سین DA College For Women Phase 8"— Presentation transcript:

1 از نگہت یِِِِِِا سین DA College For Women Phase 8
رپور تاژ از نگہت یِِِِِِا سین DA College For Women Phase 8

2 ’’کہانی اس وقت دلچسپ معلوم ہوتی ہے جب وہ
سچا واقعہ معلوم ہو اورسچا واقعہ اس وقت جب وہ کہانی سی لگے۔‘‘ یعنی بنیادی طور پر رپورتاژ اس تحریر کو کہیں گے جس میں سچے واقعے کو اس قدر دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہو کہ وہ کہانی سی لگتے ہوں ، اور واقعات کے بیان میں دلچسپی اسی وقت پیدا ہو گی جب ہم انہیں ادبی انداز میں بیان کریں گے۔

3 رپورتاژ کا مفہوم: رپورتاژ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے۔ انگریزی میں اس کو’’رپورٹ ایج‘‘ (Reportage) کہتے ہیں۔ متعدد لغات میں اس صنف کو’’رپورٹ‘‘کے ہم معنی قرار دیا ہے۔ مثلا ً ’’ڈیوڈ گرامس‘‘ نے لٹریری کمپینیئن ڈکشنری میں لکھا ہے کہ: Reportage: (rep-artazh): “The reporting of news, factual topical writing that comes from direct observation or document able events, or situations, news story.” اس تعریف کی رو سے لفظ رپورتاژ کا استعمال دو معنوں میں کیا جا سکتا ہے : اول : اخباری رپورٹ دوم : کسی رپورٹ میں رپورٹر کی خود اپنی ذات کا اظہار ہے۔

4 اردو میں رپور تاژ نگاری :
اردو میں رپور تاژ نگاری صرف رپورٹ نہیں بلکہ ایک ادبی صنف کی حیثیت سے اس کا اپنا ایک مقام ہے۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں کہ : ’’رپور تاژ کو ہم واقعات کی ادبی اور محاکاتی رپورٹ کہہ سکتے ہیں‘‘

5 رپور تاژ اور دیگر اصنافِ ادب :
*افسانہ اور ناول: ’’داخلی کیفیات کوخارج پرمرتثم کرنےسےافسانہ یا ناول وجود میں آتا ہے،اورخارجی حالات کوداخلی کیفیات میں سمو دینے سے رپورتاژجنم لیتا ہے۔‘‘ اس طرح رپورتاژ کا ماحول افسانے اور ناول کے مقابلے میں زیادہ حقیقی اور صداقت آمیز ہوتا ہے۔ *انشائیہ نگاری: انشائیہ اور رپورتاژمیں فرق یہ ہےکہ رپورتاژ کی بنیادحقیقت پررکھی جاتی ہےاورانشائیہ میں تخیل کی بلند پروازی پر۔ * صحافت : صحافت اور رپور تاژ کا قریبی تعلق ہے۔ ’’ڈاکٹر اعجاز حسین نے رپور تاژ کو ادب وصحافت اور سردار جعفری نے افسانے اور صحافت کی درمیانی کڑی قرار دیا ہے۔ رپور تاژ کے اجزائے ترکیبی سفر نامہ ، آپ بیتی ، خاکہ نگاری، روزنامچہ، سوانح، ڈائری، اور ڈرامہ نگاری سے بھی کہیں کم اور کہیں زیادہ میل کھاتے ہیں۔

6 رپور تاژ نگاری کی ابتدأ:
رپور تاژ کی ابتدأ فرانس سے ہوئی۔ ۱۹۴۸ٔ کے ریڈ رز ڈائجسٹ کے مطابق : ’’یہ ( رپور تاژ) پرانا فرانسیسی لفظ ہے جسے فرانس ہی میں پہکی بار۱۹۵۸-۵۹میں استعمال کیا گیا۔‘‘ ‘‘The book of reportage’’ نے ’’ John carey لیکن ’’ ترتیب دی تو اس میں کل ۲۶۹ رپور تاژ شامل کئے جس میں ۴۰۰ قبلِ مسیح کے اور ۱۶۰ رپور تاژ۱۹۰۰ٔ سے پہلے کے ہیں ۔

7 اردو رپورتاژ کی ابتدأ و ارتقأ :
اردو کی تخلیقی نثر میں رپور تاژ کی پہلی جھلکیاں غالب کے خطوط میں نظر آتی ہیں۔ ۱۸۵۷ٔ کے بعد دلی کا نقشہ غالب نے ایک خط کی عبارت میں یوں کھینچا ہے کہ: ’’ مصیبتِ عظیم یہ ہے کہ قاری کا کنواں بند ہو گیا ہے۔ لال ڈ گی کے کنویں یک قلم کھاری ہوگئے۔ جامع مسجد سےراج گھاٹ کےدروازےتک بےمبالغہ ایک صحرائے لق ودق سےاینٹوں کےڈھیرجوپڑے ہیں وہ اگراٹھ جائیں، ہُوکامکان ہوجائے۔ کشمیری دروازےکا حال تم دیکھ گئے ہو، اب آہنی سڑک کےواسطے کلکتہ دروازے سےکابلی دروازے تک میدان ہوگیا۔ قصہ مختصر شہرصحرا ہوگیا تھا، اب جوکنویں جاتے رہے اور پانی گوہر ِنایاب ہو گیا تو یہ صحرا، صحرائے کربلا ہوجائے گا۔ شہرنہیں ہے، کیمپ ہے ، چھأونی ہے ( نہ قلعہ ، نہ شہر، نہ بازار، نہ نہر)۔‘‘

8 اردو کا پہلا رپور تاژ : * ۱۸۵۷ کے ہنگامے پر لکھی گئی قابل ِ ذکر روئداد ظہیر دہلوی کی ’’داستان ِ غدر‘‘ جس کو بعض ناقدین نے اردو کا پہلا رپورتاژ کہا ہے۔ * ثریا حسین کا خیال ہے کہ اردو کے پہلے رپورتاژ نگار سجاد حیدر یلدرم ہیں اور ’’سفرِ بغداد‘‘ اور ’’ زیارتِ قاہرہ و قسطنطنیہ‘‘ اردو کے پہلے اور دوسرے رپورتاژ ہیں۔ لیکن ’’سفرِ بغداد‘‘ اور ’’ زیارتِ قاہرہ و قسطنطنیہ‘‘ دراصل سفر نامے ہیں البتہ سفرنامے اور رپورتاژ کے کچھ اجزأ ضرور ان دونوں سفر ناموں میں مل سکتے ہیں۔ * ۱۹۴۰ میں سجاد ظہیر کی لکھی گئی’’یادیں‘‘ رپورتاژ کی باقاعدہ ابتدأ تھی۔ لیکن حسن عسکری نے اسے رپورتاژ کم اور یاداشت زیادہ کہا ہے اور اسی بنأ پر ’’یادیں‘‘ کونہیں بلکہ کرشن چندر کے’’ پودے‘‘ کواردو کا پہلا رپورتاژ مانا ہے۔ * ’’ پودے‘‘ میں کرشن چندرنے ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۶ٔ میں حیدر آباد میں ہوئی کل ہند اردو کانفرنس کی روئداد کو مخصوص انداز سے بیان کیا ہے۔ یہ سفر نامہ بھی ہے ، رپورتاژ بھی اور اس میں مختلف شخصیات پر اظہارِ خیال بھی کیا گیا ہے۔ * اس کے بعد عادل رشید نے ۱۹۴۸ٔ میں’’خزاں کے پھول‘‘ تحریر کیا جو ۱۹۴۹ٔ میں شائع ہوا۔

9 رپور تاژ کا زریں دور: تقسیمِ ہند کے حادثاتی دور میں مصنفین نے باوجود پابندیوں کے جو کچھ محسوس کیا ، تحریر کر دیا اور رپورتاژ کواظہارکا وسیلہ بنادیا۔ ان فسادات کے نتیجے میں بڑے معیاری رپورتاژ سامنے آئے۔ مثلا ً * پو پھٹے خدیجہ مستور * دو ملک ایک کہانی ابراھیم جلیس * دلی کی بپتا شاہد دہلوی * جب بندھن ٹوٹے تاجور سامری * ۱۹۵۰ٔ میں کرشن چندر کا ایک اور رپورتاژ ’’صبح ہوتی ہے‘‘ منظرِ عام پر آیا جسے ہر لحاظ سے رپورتاژ نگاری کا بہترین نمونہ قرار دیا گیا۔ * ۱۹۵۲ٔ میں قراۃالعین حیدر نے نہایت خوبصورت رپور تاژ ’’ستمبر کا چاند‘‘ پیش کیا۔

10 رپور تاژ نے افسانے، ناول اور غزل کی طرح نہ
صرف قاری کےدل میں اپنی جگہ بنائی ہے بلکہ رپورتاژ ، اور رپورتاژ کے اثر سے دیگر اصنافِ ادب اور رجحانات میں آتی ہوئی نمایاں تبدیلی اس بات کا ثبوت ہے کہ رپورتاژ اردو ادب میں اپنے لئے جائز مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور آئندہ بھی رپورتاژ نگاری کی ترقی کے روشن امکانات ہیں۔

11 کتابیات : * اردو میں رپورتاژ کی روایت طلعت گل
* اردو میں رپورتاژ کی روایت طلعت گل *اصنافِ ادب رفیع الدین ہاشمی * اصنافِ ادب نمبر نگار دسمبر ۱۹۶۶ٔ * دبستان ِاردو ادب سید منیر علی جعفری * *


Download ppt "از نگہت یِِِِِِا سین DA College For Women Phase 8"

Similar presentations


Ads by Google